انسانوں کا کچرا جو سمندروں میں داخل ہوجاتا ہے "سمندری کچرا" کہلاتے ہیں۔ زیادہ تر سمندری کچرا پلاسٹک ہوتا ہے۔ کیلا کچھ عرصے بعد گل جاتا ہے، لیکن پلاسٹک کبھی نہیں پورا گلتا، سو سال کے بعد بھی! وہ بس چھوٹے اور چھوٹے ٹکڑے میں ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ ٹکڑے سمندری جانوروں کے جسم میں گھس کر پھر ہمارے کھانے میں بھی آجاتے ہیں۔ پلاسٹک جانوروں اور انسانوں کے اندر ہونا بہت خطرناک ہے۔ پلاسٹک کے بڑے ٹکڑے بھی خطرناک ہوتے ہیں۔ سمندری پرندے ان کو کھانا سمجھ کر کھالیتیں ہیں۔ سمندری کچرا کھانے میں بہت خطرہ ہوتا ہے۔ سمندری پرندے کے گلا میں پھنس سکتا ہے، یا اس کو کھا کر وہ بھوک سے مر سکتے ہیں۔ ۲۰۵۰ تک سمندری پرندے کی آبادی میں سے %90کچرا کھالیں گی!
بہت سارےسمندری کچرا میں بھی آلودگی ہوتی ہے، جو پانی کو خراب کردیتی ہے۔ یہ آلودگی پلاسٹک سے نکل کر پانی، انسان ، اور جانوروں میں چلی جاتی ہے۔ سگریٹیں ساحل پر بکھر ے ہونا بہت عام ہے، لیکن اگرصرف ایک سگریٹ کی آلودگی پانی میں آجائے تو پھر وہ کافی ہے مچھلی کو مارنے کے لیے۔
دوسرے چیزوں کی طرح پلاسٹک نہیں گل تھا، وہ صرف چھوٹے ٹکڑے میں ٹوٹ جاتا ہے۔ جب یہ ٹکڑے اتنے چھوٹے ہوجاتے ہیں جب انسان کی عام آنکھ سے نہیں نظر آئے، وہ مائکرو پلاسٹک کہلاتا ہے۔ سمندر کے سب سے ننھے جانور، جیسے کیکڑے، کرل، وغیرہ، ان مائکروپلاسٹک کو کھالیتے ہیں۔ پھر یہ مائکروپلاسٹک ان کے جسموں میں جمع ہوجاتے ہیں۔ جب دوسرے جانور ان کو کھاتے ہیں ، پھر وہ بھی ان مائکروپلاسٹک کو اپنے جسم میں جمع کرلیتے ہیں۔ یہ چکر چلتا رہتا ہےجب تک کہ جو سمندری کھانا انسان کھاتے ہیں، اس میں مائکروپلاسٹک حاضر ہوتا ہے، اور پھر کھا کر انسان اپنے آپ میں جمع کر دیتے ہیں۔
پورے دنیا میں صرف انسان پلاسٹک بناتے ہیں، ہم مسئلہ ہیں۔ ہم پر زماداری پڑتی ہے کی ہم پلاسٹک کا کوئی حل ڈھونڈے۔ سب سے ظاہر حل ہے کہ ہم پلاسٹک بنانا اور استعمال کرنا بالکل چھوڑدیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس دنیا میں رہنا پلاسٹک کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمارا کھانا، کپڑے، ٹیکنالوجی، سب میں پلاسٹک کسی طرح شامل ہے۔ اور وہ چیزوں جس میں کسی طرح کوئی پلاسٹک نہ ہو، بہت مہنگا ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ہم صرف حکمت پر زور ڈالے تاکی وہ زیادہ سختی کریں پلاسٹک بنانے والوں اور بھیجنے والوں پر۔