احساسِ انسانیت:منٹو کا کھول دو
سعادت حسن منٹو اردو کے بہت مشہور افسانا مصنف ہیں۔ ان کے سب سے مقبول افسانے پاکستان اور ہندوستان کے جدائی کے بارے میں ہیں۔ اس زمانے میں، مصنف زیادہ تر اپنے وطن کے لیے لکھتے تھے۔لاس کے برعکس منٹو کسی ملک کے لیے نہیں بلکہ جہاں ان کو معاشرے میں کوئی گند نظر آتی، وہ اس کو پیش کر لیتے تھے۔ان کا تحریر کا مقصد کوئی ملک کو بلند کرنے کانہیں تھا۔ اسی لیے منٹو کے افسانے اتنے پسند نہیں کیے جاتے تھے۔ منٹو کے تلخ سچائیاں کو بے ہودا کہلایا گیا تھا۔ اس کے گزرنے کے بعد منٹو کا نام صاف ہوگیا تھا اور اب ان کے افسانے کی اہمیت نظر آتی ہے پورے دنیا کو۔
"کھول دو" منٹو کے جدائی افسانوں میں سے ایک بہت مشہور افساناہے۔ اس کہانی میں ایک بوڑھا آدمی ، سراج الدین، مہاجرین کاکیمپ میں آنکھ کھولتا ہے۔ اس کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی اوکلوتی بیٹی، سکینہ، غائب ہے۔ وہ کچھ بہادر نوجوانوں کی مدد لیتا ہے سکینہ کو ڈھوڈنے میں۔ چند دنوں میں نوجوان سکینہ کو ڈھونڈ لیتے ہیں، اور پھر کیمپ کے طرف لوٹتے ہیں۔ لیکن یہ نوجوان سکینہ کو اجتماعی عصمت دری کرکے اس کو کیمپ کے نظدیق چھوڑ دیتے ہیں مرنے کے لیے۔ کچھ لوگ اس کو ڈھونڈ کر اسپتال میں لیکر بھڑتی کرادیتے ہیں۔ سراج الدین اس کو وہاں دیکھتا ہے، بےہوش اور بری حالت میں۔ ڈاکٹر سکینہ کے کمرے میں آتا ہے اور سراج سے بولتا ہے کہ کھڑکی کھول دو۔"کھول دو" سن کر سکینہ ہوش میں آجاتی ہے اور اپنی شلوار کھول کر نیچے کر دیتی ہے۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ نوجوانوں اس کا فائدہ پھر سے اٹھانے والے ہیں۔ باپ کو اس بات احساس نہیں ہوتا اور وہ بہت خوش ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی زنداہے۔
ایک جگہ کہانی میں ذکر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سراج الدین کی بیوی کا پیٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کی انتڑیاں باہر نکل گئی۔ تو شروع میں ہم کو ہندوستان والوں سے خوف آرہا تھا، کہ وہ مہاجرین کو مار رہے تھے۔لیکن کہانی کے اخر میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان والوں سے بھی خوف آنا چاہیے۔ مہاجرین ہندوستان بھاگ کر پاکستان آگئے، ایک کیمپ میں۔ وہاں نوجوان بہت نیک نظر آئے ۔ وہ اتنا بہادر اور نیک کام کر رہے تھے کہ غائب لوگ اپنے خاندان سے دوبارہ ملا رہے تھے۔ لیکن آخر کار میں انہوں نے بہت برا ظلم کیا سکینہ کے ساتھ۔ یہاں منٹو ایک سچائی بیان کرتےہیں کہ مصیبت کے وقت افراد کے درمیان ، ہمیشہ ایک دوسرے سے ظلم محفوظ نہیں رہتے ۔
جب "کھول دو" شائع ہوئی ، تومنٹو کے خلاف ایک محاز کھڑا ہوگیا۔پڑھنے والوں نے اس کو فحاشی کا نام دیدیا۔ اور آج کے دن بھی کچھ لوگ منٹو پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ سماج کے مسئیلے تو بیان کرتے تھے لیکن ان کا کوئی حل نہیں بتاتے ۔ تو کیا فائدہ؟ ہر ایک کو معلوم ہے کہ سماج میں کیا کیا گند ہیں، لیکن اب وہ حل معلوم ہونے میں زیادہ دلچسپ ہیں۔ میرے خیال میں یہ غلط فہمی ہے۔ میں بچپن سے پاکستان اور ہندوستان کی جدائی اپنے والدین اور نانا نانی سے سنتی آئیں ہوں۔ لیکن آج کے دن جب ہم رنج اور خطرناک خبروں میں گھر ہوئے ہیں، ہم کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ دن کتنے دکھی اور خطرناک وقت تھا۔ "کھول دو" پڑھ کر میرا دل کو بہت دکھ پہنچا، کہ سکینہ کے ساتھ اتنا ستم ہوا کہ وہ اپنی بےہوش بے جان حالت میں اٹھی اپنی شلوار نیچے کرنے کے لیے۔ پورا دن میں سوچتی رہی کہ ان دنوں میں کتنے عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوا۔ اور کہ وہ کہیں محفوظ نہیں تھی، اپنے خود مذہب نیک والوں کے ساتھ بھی نہیں۔ یہ خوف اور سوچ شاید میں کبھی نہ محسوس کرتی اگر میں نے ایسی کہانی نہ پڑھی۔
میرے خیال میں دنیا کے مسئیلے کا حل ہے کہ ہم انسان اور ہمدد ہو جائے۔ایسی کہانیاں پڑھ کر ہم کو محسوس ہوتا ہے دوسروں کا درد اور ان کی آب بیتی۔ تو مجھے غصہ آتا ہے ان لوگوں پر جو منٹو کی کہانیاں پڑھ کر فحاشی کا نام دیدیتے ہیں۔ وہ زیادہ ہمدرد ہونے کے بجائے، غلط جزبے پیدا کرتے تھے۔ آخر میں، منٹو کا "کھول دو" بس ایک افسانا نہیں ہے۔ یہ ایک پرجوش تبصرہ ہے جو ہماری توجہ کا متقاضی ہے، اور ہمیں احساس دیلاتا ہے کہ برے لوگ ہر جگہ میں موجود ہیں۔