ایک گدھے کی سرگزشت کیا تنقید کرتی ہے؟

🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏🫏

ایک گدھے کی سرگزشت کرشن چندر کا مزاحیہ ناول ہے، جس میں ایک گدھا کا کردار بولنا پڑھنا سیکھ لیتا ہے، اور پھر آزاد ہندوستان پر تنقید کرتا ہے۔

ضدِ فکری پر تنقید

اس مضمون کے لیے میں "فکری" کو اس انداز میں استعمال کروں گی، "چیزیں جو تعلیم ، فلسفی، علم، فن، وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں"۔ اور اس کی بنیاد پر، "فکری والا" کا مطلب ہوگا جو فکری چیزوں میں حصہ لیتا ہے۔

کرشن چندر کی کہانی بارابنکی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بھارت میں ایک شہر ہے جہاں ان کے عالم اور فاضل مشہور ہیں۔ اس وجہ سے بارابنکی میں فکری کی قیمت اہم تو ہوگی۔ شاید اسی لیے سید کرامت علی شاہ کا کردار ، جو فکری چیزوں کا شوقین تھا، یہاں اپنی کوٹھی تعمیرکرا رہا تھا۔ سید کرامت فکری والا کا بہترین مثال ہے۔ وہ ایک عمیر بیرسٹر ہیں۔ ان کو پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ انہوں نے اپنی کوٹھی میں پہلا کمرہ لائبریری اور ریڈنگ روم بنایا۔ اور "سید صاحب کو اخبار پڑھتے ہوئے خبروں پر بحث کر نے اور کتاب ۔۔۔پڑھتے ہوئے اس پر تنقید کرنے کی عادت تھی"۔ یہی خوبیاں انسان کو فکری والا بناتا ہے۔

لیکن ضروری نہیں کہ صرف سید کرامت علی شاہ جیسے لوگ فکری والےہو۔ بقول کرشن چندر کوئی بھی فکری والا ہو سکتا ہے، حالانکہ گدھا بھی! گدھا کہتا ہے کہ، " حضرات میں نہ تو کوئی سادھو فقیر ہوں۔۔۔ میں نہ ڈاکٹر ہوں، نہ حکیم ہوں، ۔۔۔، نہ کوئی فلم سٹار ہوں، نہ سیاسی لیڈر۔"، وہ بس گدھا ہے۔ اگر ہم سوچئے کہ کون ممتاز فکری والا نہیں بن سکتا تو پھر گدھے خیال میں آئے گے۔گدھوں کے لیے پڑھنا بولنا ممکین بھی نہیں ہے تو پھر وہ کبھی فکری والے کیسے بن سکے گے؟ لیکن جب کہانی میں گدھا پڑھنا بولنا سیکھ لیتا ہے، کرشن چندر دکھاتا ہے کہ آپ کا پس منظر سے فرق نہیں پڑتا،اگر آپ کا شوق ہے تو آپ فکری والا بن سکتے ہیں۔

اس کے باوجود کہ فکری صرف چند لوگوں تک محدود نہیں ہے، بارابنکی کے فکری والوں میں صرف گدھا اور سید صاحب ہیں۔ گدھا کہتا ہے "۔۔۔انہیں کوئی ایسا نہ ملا جس سے وہ ایسی بحث کر سکتے "، تو گدھا کے بجائی کوئی اور شخص سید صاحب کے ساتھ فکری چیزوں پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ بات دلچسپ لگی کیونکہ بارابنکی اپنے علم اور فلسفی تہزیب کے لیے مشہور ہے۔ تو یہاں فکری والا کو ڈھونڈنے میں مشکل نہیں ہونی چایئہے۔ میرے خیال میں کرشن چندر ضدِ فکری میں اضافہ بیان کر رہے ہیں۔ کہ اب لوگوں کا شوق فکری چیزوں میں نہیں رہا۔ حقیقت میں وہ اب فکری چیزوں کو برا اور بکار سمجھتے ہیں۔ اب سب کام کرنے میں اور پیسے کمانے کو اہم سمجھتے ہیں۔ یہ نظر آتا ہے جب گدھا کا مالک کہتا ہے "مجھے تو اینٹیں ڈھونے والا گدھا چاہئے، اخبار پڑھنے والا گدھا نہیں چاہئے۔" ، اور پھرگدھا کو بری طرح سے مارتا ہے۔

اس کہانی کے پہلے قسط کے آخر میں، سید صاحب کو اپنا کوٹھی چھوڑ کر پاکستان بھاگنا پڑا کیونکہ فسادیوں بارابنکی میں آجاتے ہیں۔ پھر ایک پھل والا ان کے کوٹھی میں چلا جاتا ہے۔ وہ سید صاحب کے سارے کتاب پھینک کر، اپنے پھل اندر رکھ لیتا ہے۔ گدھا یہ دیکھ کر سوچتا ہے "۔۔۔جس شہر میں کتابوں اور عالموں فاضلوں کی یہ بے حرمتی ہوئی ہو، وہاں رہنا ٹھیک نہیں"۔ یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کرشن چندر اس ضدِ فکری کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ کہ ایسی سوچ سماج کو برباد کر سکتی ہے اور وہاں رہنا ٹھیک نہیں۔

سرمایہ داری پر تنقید

کرشن چندر سوشلشٹ پارٹی میں موجود تھے۔ زیادہ تر سوشلشٹس سرمایہ داری سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام میں پیسے صرف چند آباد کے پاس رہتی ہے، اور حکومت غریبوں کے لیے زیادہ کچھ نہیں کرتی۔ "ایک گدھے کی سرگزشت" پڑھ کر مجھے لگا کہ کرشن چندر ایسے ہی سوچتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں۔ وہ اس نظام کے مسئلے پیش کرتے ہیں رامو دھوبی کا کردار کے ساتھ۔ جب گدھا نئی دلی آجاتا ہے، تو رامو دھوبی اس کا مالک بن جاتا ہے۔ رامو دھوبی کے زندگی پر گدھا بہت اہم مشاہدے کرتا ہے۔ کرشن چندر ان مشاہدے کے زریعے سے سرمایہ داری کے مسئلے پیش کرتے ہیں۔

رامو دھوبی پورا دن کام کرتا تھا، پھر گھر آکر کھا پی کر سوجاتا تھا۔ وہ ہر دن ایسے ہی گزار تا۔ گدھا یہ دیکھ کر سوچتا ہے "دنیا میں کیا ہو رہا ہے، سائنس کسے کہتے ہیں، سینما کیا ہوتا ہے، رقص اور کلچر، تہذیب اور خوبصورتی۔ فن اور فلسفہ ان تمام باتوں سے رامو کی اور میری زندگی بالکل خالی تھی"۔ یہ تمام فکری چیزیں جو گدھا ذکر کر رہا ہے، انسان اور جانور کو الگ کرتی ہیں۔ رامو کے پاس پیسے نہیں تھے ان چیزوں میں حصہ لینے کے لیے، اگر وہ پورا دن کام میں نہیں لگتا تو پھر اس کا خاندان کھانا نہیں کھا پاتے۔ لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ رامو دھوبی کا انسانیت اس سے چھین گیا۔ نظام اپنے آباد سے ظلم کر رہا ہے اگر آباد کو جانوروں جیسے زندگی بسارنی پڑتی ہے۔

یہ ظلم صاف نظر آتا ہے جب رامو دھوبی اپنی مایوسی کو پیش کرتا ہے۔ کیونکہ ایسا تو نہیں تھا کہ رامو دھوبی اپنے رہن سہن سے خوش تھا۔ رامو اپنی زندگی سے بالکل خوش نہیں تھا۔ اس کا بہت بڑا شوق تھا سنیما دیکھنے کا، لیکن کبھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ لیکن کچھ موقوں پر اس کو برداشت نہیں ہوپاتا تھا، اور وہ اپنے گھر کھیلانے کے بجائے کوئی فلم دیکھنے کے لیے چلاجاتا تھا۔ ایک دن رامو کہتا ہے " ۔۔۔ کبھی کبھی کوئی دوسری بھوک بھی ایسی جاگ پڑتی ہے کہ رہا نہیں جاتا، کیا ہوا دھوبی ہوں۔ آخر کو انسان ہوں"۔ رامو دھوبی کی زندگی دیکھ کر ہم کو احساس ہوتا ہے کہ سرمایہ داری انسانوں کو فکری چیزیں سے دور کر لیتی ہے پیسے کے نام میں۔ اور جب ہم فکری چیزیں سے دور ہوجاتے ہیں، پھر ہماری انسانیت خطرے میں آجاتی ہے۔


آپ کیا سوچتے ہیں؟