ہستی اپنی حباب کی سی ہے تشریح
حستی اپنی حباب کی سی ہے تشریح اور انگریزی ترجمہ
غزل
کچھ شعر کو غور سے تشریح کرنا
حستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
اس شعر میں میرؔ زندگی کو حباب سے ملاتا ہےکہ وہ کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ایک بوتل میں شاید لاکھوں حباب ہوں گے، اور سارے منٹوں میں پھٹ جاتے ہیں۔ پھٹ کر کسی کو فکر یا رنخ نہیں ہوتا وہ بس اپنے خود زندگی سے چلتے رہتے۔ تو میرؔ ان لوگوں پر تقید کررہا ہے جو اپنے پوری زندگی محنت کر کے پیسے اور چیزیں حاصل کر کے ایک نمائش دنیا کے لیےلگاتے ہیں۔ کہ دیکھو ہم کتنے کامیاب، کتنے دلچسپ، کتنے قابل لوگ ہیں! لیکن یہ سب سراب ہے، حقیقی نہیں ہے۔ جب ان کا حباب پھٹے گا تو پھر یہ ساری چیزوں جو ان کو اتنا قیمتی احساس ہو رہا تھا، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
اگر چہ یہ غزل ہے، اور غزل کے اشعاروں میں تعلوق نہیں ہوتا، مجھے اس شعر اور مطلع میں تعلق محسوس ہوا۔ اس شعر میں شاید میرؔ کہھ رہا ہے کہ ہمیں دوسری دنیا پر بھی غور کرنا ہے کیوں کہ جس عالم میں ہم رہے ہیں، یہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ خواب جیسسی ہے۔ اس کے دو مختلف مطلب ہو سکتے ہیں۔ پہلے کے عالم کا شخص کا خود دنیا یا حباب ہے جہاں سب کچھ ان کے گرد گھومتا ہے۔اس معاملے میں، یہ خود مرکز دنیا جو ہم بنالیتے ہیں اصل نہیں ہے، وہ خواب جیسی ہے۔ ہم کو اپنی آنکھیں اصل دنیا پر کھولنی چاہیےجہاں دوسرے لوگ اور ان کے مسئلے بھی ہیں۔ دوسرا مطلب ہو سکتا ہے کہ ہماری فانی دنیا ہی خواب جیسی ہے۔ اور یہ سب چیزیں جوہم یہاں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں سراب ہے، حقیقت نہیں ہے۔ اس معاملے میں عالم جس پر ہم کو اپنی چشم دل سے دیکھنا ہے شاید جنت اور جہنم ہوسکتے ہیں۔ تو شاید میرؔ ہمیں بتارہا ہے کہ ہماری فانی زندگی سراب یا خواب جیسی ہے اور ہم کو زیادہ مذہبی ہونا چاہیے کیونکہ اصل عالم ہماراے مرنے کے بعد آئے گی۔
غزل کا خلاصہ
اس غزل میں میر تقی میرؔ مطلح میں فلسفے کے باتیں کرتا ہے، کہ "ہستی اپنی حباب کی سی ہے" مطلب ہماری زندگی حباب جیسے کبھی بھی پھٹ سکتی ہے۔ پھر دوسرے شعر میں وہ اچانک سے پیار اور اپنے محبوب کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس شعر کے بعد وہ فلسفہ پر واپس آجاتا ہے۔ "یاں کی اوقات خواب کی سی ہے"، کہ ہماری زندگی حقیقی نہیں ہے، وہ خوبصورت تو ہے جیسے حباب کے رنگ بھی خوبصورت ہو تے ہیں، لیکن حباب کے جیسے وہ اہم نہیں ہے اور جلدی سے اس دنیا سے چلی جاتی ہے۔ اس شعر کے بعد وہ پھر سے اپنے محبوب کے بارے میں لکھتا ہے "بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں"۔ اس شعر پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میرؔ کوئی خوبصورت لڑکی دیکھ کر اس کے پیچھے کرنا شروع کردیا، اس لڑکی کے جانے کے بغیر۔ انگریزی میں اس کو "اسٹاکر" کہلائیں گے۔ پھر ایک بار وہ اس لڑکی کی در پر گیا اور اس کو کوئی اور مرد کی آواز سنا۔ میرؔ جلن میں اس آدمی کو گالی دیا "اسی خانہ خراب کی سی ہے"۔ پھر وہ اس بات پر اپنی غم کو پیش کرتا ہے۔ اس کا دل کو محسوس ہورہا ہے کہ وہ آگ میں پک رہا ہے۔ پھر سب سے آخر کی شعر میں میرؔ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ اس پورے وقت وہ شراب کے نشے میں تھا۔ اس لیے میر فلسفے کے باتیں اور پیار کے باتیں اچانک سے آگے پیچھے کررہا تھا، اور اس لڑکی کے پیچھے ہو گیا۔