انسان اور غرور: بڑے بھائی صاحب کا تجزیہ
بڑے بھائی صاحب ایک افسانہ ہے جو منشی پریم چند نے لکھا تھا۔ یہ ۱۹۱۰ میں شائع ہوا تھا۔
"بڑے بھائی صاحب" دو بھائیوں کی کہانی ہے۔ بڑے بھائی صاحب اپنے چھوٹے بھائی سے پانچ سال بڑے ہیں، لیکن صرف تین درجے آگے، بار بار فیل ہو کر ان کو درجہ میں دو یا تین سال گزارنے پڑتے تھے۔ اس کہانی میں پریم چند بہت سارے چیزیں بیان کر رہے ہیں، خاص طور پر جدید تعلیم کی تنقید۔ لیکن مجھے ایک اور بات بہت دلچسپ لگی: انسان کا غرور ۔ ان بھائوں کے برعکس کردار، اور بڑے بھائی صاحب کی تین نصیحتوں سے کہانی دکھاتی ہے کہ غرور ہم کو ناکامیاب بنا سکتی ہے، ہمارے رشتے پر زور ڈال سکتی ہے، اور آخر کار میں ہمیں تسلی پہنچا سکتی ہے۔
کہانی کے پہلے حصے میں، دونوں بھائوں کے مزاج پیش ہوتے ہیں۔ بڑے بھائی کو بہت محنتی دکھایا گیا ہے کہ، "ہر وقت کتاب کھولے بیٹھے رہتے،"۔ اور بہت سخت بھی تھے، ان کے چھوٹے بھائی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ "بھائی صاحب کو نصیحت کے فن میں کمال تھا"۔وہ ہمیشہ لمبی لمبی نصیحت سنانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس کے متاضد، چھوٹا بھائی اپنی پڑھائے سے بھاگتا تھا، وہ اپنے بارے میں کہتا ہے، "میرا جی پڑھنے میں بالکل نہ لگتا،" اور جب بھی اس کو موقع ملتاتو وہ باہر خوب کھیل کود کرتا تھا۔
اسی وجہ سے بڑے بھائی صاحب اپنے پہلی نصیحت سناتے ہیں۔ وہ پہلے تعلیم کا ڈر اپنے بھائی میں بیٹھا تے ہیں، کہ پاس ہونے کے لیے "رات دن آنکھیں پھوڑنی پڑتی ہیں، خون جلانا پڑتا ہے"۔اور پھر وہ اچھا طالب علم کے لیے اپنی مثال دیتے ہیں۔ یہاں ان کا غرور نظر آتا ہے۔ بڑے بھائی کہتے ہیں کے وہ اتنا محنت کرتے رہتے ہیں، اور اپنے بھائی کو کوڑمغز کہلاتے کہ وہ اس سے سبق نہیں لیتا۔ بڑے بھائی صاحب اتنا فیل ہو کر بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا پڑھنے کا طریقہ درست ہے، اور ان کے چھوٹے بھائی کو بھی ایسے ہی پڑھنا چاہیے۔
میرے خیال میں یہ نصیحت بڑے بھائی کا ڈر بھی پیش کرتی ہے۔ نصیحت کے آخر میں وہ کہتا ہے، " بہتر ہے گھر چلے جاوں۔۔۔دادا کی گاڑھی کمائی کے روپے کیوں برباد کرتے ہو۔ "۔ ان کو ضرور معلوم ہوگا کہ وہ ہیں، ان کے چھوٹے بھائی نہیں، جو اپنے دادا کے پیسے کو برباد کر رہے ہیں۔ اپنی خود کی شرم اپنے چھوٹے بھائی پر نکال رہے ہیں۔ شرم اور غرور ایک دوسرے کے عکس ہیں۔ جب ہمارے غرور کو زخم پڑجاتی ہے، تو ہم کو شرم محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بھائی صاحب کے مقدمے میں ان کی شرم اپنے چھوٹے بھائی کے رشتے پر سایہ ڈالتا ہے۔
پھر کہانی کہ دوسرے حصے میں بھائی صاحب سالانہ امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں، اور چھوٹا بھائی پاس ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی سے اتنا مرعوب نہیں ہوتا، اور وہ اپنے کھیلنے کودنے میں بالکل شریک ہوجاتا ہے۔ اب چھوٹے بھائی میں بھی غرور آجاتا ہے، کہ وہ آسانی سے پاس ہو جائے گا اور بڑے بھائی صاحب کے کہنے پر غور نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی عزت نیچی ہونے پر، بڑے بھائی صاحب اپنی دوسری نصیحت کرتے ہیں۔ اس بار ان کا لہجہ پلٹ جاتا ہے۔ وہ شروع میں غرور کے خطرے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ راون اور ابلیس کی مثال دے کر کہتے ہیں، "انسان اور چاہے جو برائی کرے غرور کیا اور دین و دنیاسے گیا"۔ اس کا مطلب کہ غرور سب سے برا گناہ ہے جو انسان کر سکتا ہے، اگر وہ غرور کرے گا تو بالکل برباد ہو جائے گا۔ میرے خیال میں بڑے بھائی صاحب اپنی مثال بھی دے سکتے تھے اس نصیحت میں۔ابتدہ میں انہوں نے اپنا غرور دکھا یا کہ وہ زیادہ محنتی ہیں اور اپنے بھائی کو ڈانٹ دیتے تھے۔ اور جب انہوں نے امتحان کو فیل کردیا، ان کی عزت اپنے چھوٹے بھائی سے کم ہو گئی۔ اب چھوٹا بھائی ان کو چلو پانی بھی نہ دیتا۔
بڑے بھائی صاحب اپنے نصیحت کے آخر کار میں پھر سے تعلیم کا ڈر اپنے چھوٹے بھائی میں ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد چھوٹا بھائی تھوڑا بہت تو پڑھائی کرلیتا تھا۔ پھر تیسرے حصے میں بڑے بھائی صاحب پھر سے فیل، اور چھوٹے بھائی پاس۔ امتحان کا نتیجہ سن کر وہ روتے ہیں۔ اب بڑے بھائی اپنے رنج میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس کو پڑھ کر میرے دل کو بھی دکھ لگا۔ جب انسان سالوں کی محنت سے کوئی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور ناکامیاب رہے جاتا ہے، تو افسوس ضرور ہوگا۔ لیکن اس کے اوپر جب انسان کا چھوٹا بھائی یا بہن اس ہی کام کو آسانی سے بے محنت سے کرلیتے ہیں تو شر م اور غصہ محسوس تو ہوگا۔ عام طور پر بڑے بھائی بہن کو کامیاب اور مستحکم سمجھاجاتا ہے اور ان کے چھوٹے بھائی بہن ان کی طرف دیکھ سکتے ہیں ہدایت کے لیے۔ تو یہاں بڑے بھائی کے غرور پر چوٹ پڑجاتی ہے جب ان کا چھوٹا بھائی ایسے نہیں سوچھتا۔
یہ سب بڑے بھائی صاحب کی تیسری نصیحت میں نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے بھائی کے کامیابی کو چھوٹا کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ امتحان پاس ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ پھر وہ ایک نتیجہ پر آتے ہیں جو ان کو تسلی پہنچا دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ پانچ سال بڑے ہوں گے، اور جتنا ہی ان کا چھوٹا بھائی پڑھ لے یا کامیاب بن جائے وہ ان سے تجربہ میں پانچ سال کم ہی ہو گا۔ چھوٹا بھائی یہ بات مان لیتا ہے، اور پھر دونوں ایک دوسرے کے سات پتنگ بازی کھیلنا شروع کرلیتے۔ یہ ایک خوبصورت سین ہوتا ہے، کہ بڑے بھائی جو پورے کہانی تک بالکل نہیں کھیلتے، اب اپنے بھائی کے ساتھ خوشی خوشی کھیل رہے ہیں۔ ان کے تجربہ کے احساس سے ان کا غرور بحال ہو جاتی ہے۔ اس کے بغیر وہ بےپریشانی کے ساتھ کھیل پاتے ہیں۔
ان دونوں کردار اور چند صفحوں کے ساتھ، پریم چند غرور کی پیچیدگیاں ظاہر کرتا ہے۔ کہ غرور ہم کو ناگوار بنا سکتا ہے، ہمارے خاندان اور دوستوں کو دور کرسکتا ہے۔ لیکن ہمارے سکون کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہمارے پاس غرور نہیں ہوتا تو ہم شرم میں بھی رشتوں پر زور ڈال سکتے ہیں۔غرور اور شرم میں ترتیب چاہیے۔ غرور انسانوں کے لیے پیچیدہ اور اہم جذبات ہے جسے اس کہانی میں زبردست انداز میں پیش کیا گیا ہے۔