اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا تشریح
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا تشریح اور ترجمہ
غزل
تشریح
اس شعر تصاویر منقش کرتا ہے کہ میرَ اتنا روہ رہا تھا کہ اس کے آنکھوں سے آنسوں ہمیشا آتے تھے۔ اور جب اس کے جسم میں آنسوں نہیں رہے تو پھر لوہو، یعنی خون، بہتاتھا۔ شاید محبت کے مسئلیں سے اس کی حالت ایسی ہو گئے ہے۔ مجھے یہ شعر مسند آئےکیونکہ اس کو پڑھ کر گیلی آنکھوں سے خون بہتے کی بڑی صاف تصاویر نظر آتی ہے۔
یہ شعر بتاتا ہے کہ عام طور پر ہم سب ہوش میں رہتے ہیں۔ ہمارے پاس عقل ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ آتا ہے، یہاں وہ کا مطلب محبوب ہے، تو پھر میرَ اپنے ہوش میں نہیں ہوتا۔ وہ پیار میں گھم یا پاگل ہوجا تا ہے۔
مونس ہجراں کا مطلب ہے جو جدائی میں ساتھ رہتا ہے۔ تو جب میرَ کی جدائی ہو گئی تو اس کے ساتھ میں صبر تھا۔ اس شعر کا مطلب ہے کہ جب میرَ اور اس کے محبوب الگ الگ ہو گئے تو وہ و برداشت کر رہا تھا۔ لیکن دوسرے مصرع میں وہ بتاتا ہے کہ اب اس کے پاس صبر بھی نہیں ہے، اس کو اپنے جدائی سے برداشت نہیں ہو رہا اور دکھی ہے۔
اس شعر میں میرَ کی کوئی خواہش تھی اور اس کا دل بہت چاہ رہا تھا کہ وہ خواہش مکمل ہو جائے۔ لیکن وہ نہیں مکمل ہو پائے اور اس لیے وہ بہت دکھی ہے۔ گر کا مطلب روہنا، تو اس کے آنسوں کا کوئی وجہ ہے۔ جیسا کہ یہ تشریح میں بتاتا ہے، میرَ کی خواہش تھا کہ اس کا پیار اپنے محبوب کے ساتھ چلے، لیکن کسی وجہ سے نہیں چلا تو اس لیے وہ روہ رہا تھا۔
یہاں جی کا مطلب دل ہے، اور اے ہمدم کا مطلب میرا محبوب، اور سخن تابه کا مطلب تقریر ہے۔ تو اس شعر میں میرَ بول رہا ہے کہ اس کے دل بہت سارے خیال اور احساسات ہیں اپنے محبوب کے بارے میں، لیکن وہ احساسات اپنے لب کے ساتھ نہیں بول پارہا تھا۔ شاید اس لیے اس نے بولنے کے بجائے اپنے احساسات اس غزل میں لکھ لیے۔