الطاف حسین حالی کی رباعیات کا تشریح
الطاف حسین حالی کی رباعیات کا تشریح اور ترجمہ
ہیں جہل میں سب آلم و جاہل ہم سر
آتا نہیں فرق اس کے سوا ان میں نظر
آلم کو ہے علم اپنی نادانی کا
جاہل کو نہیں جہل کی کچھ اپنے خبر
یہ شعر بول رہا ہے کہ دونوں آلم اور جاہل لوگ جہل ہو سکتے ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں آتا سوا ایک۔ آلم کو معلوم ہے اپنے جہل کے بارے میں، اور جاہل کو نہیں معلوم اپنے جہل کی۔ میرے خیال میں یہ شاعر آلم لوگوں کو تنقید کر رہا ہے۔ کہ آلم کے پاس علم ہے اور معلوم ہے اپنے جہالت کی، لیکن پھر بھی ان کے مزاج جاہل کی طرح ہو تے ہیں۔ یہ شاعر علم اور مزاج کے درمیان فرق کی نشاندہی کر تا ہے۔
فتنہ کو جہاں تلک ہو دیجیے تسکیں
زہر اگلے کوئی تو کیجیے باتیں شیریں
غصہ غصے کو اور بھڑکاتا ہے
اس عارضہ کا علاج بالمثل نہیں
اس شعر میں شاعر ہم پر زور ڈال رہا ہے کہ ہم دوسرے سے اچھا سلوق کریں۔ اگر کوئی برائی پھیلا رہا ہے، تو پھر ہم اس کو تسلی پہنچانے کی کوشش کر یں۔ اور اگر کوئی بہت زہریلی باتیں کر رہا ہے، تو ہم غصے سے جواب دینے کے بجائے ہم کونرمی سے جواب دینا چاہے۔ کیونکہ اگر ہم بھی غصے میں آجائیں تو پھر کوئی علاج نہیں ہو گا۔ ہم صرف ایک دوسرے کو بھڑکاتے رہیں گئے۔