اختر نظمی کے دوہے کا تشریح


اختر نظمی کے پانچ دوہے کی ترجمہ اور تشریح


بھاری بوجھ پہاڑ سا کچھ ہلکا ہو جائے

جب میری چنتا بڑھے ماں سپنے میں آئے

first doha and its English translation

first doha and its English translation–

اس شعر میں مصنف اپنے پریشانیاں کو پہاڑ سے ملا رہا ہے۔ کہ اس کے پریشانیوں کا بوجھ پہاڑ کی طرح بھاری ہے۔ اس کے لیے ماں بہت سکون اور تسلی پہنچاتی ہے تو جب اس کے چنتا( پریشانیاں) بڑھنے لگتیں ہیں، وہ خواب میں اپنی والدہ کو دیکھتا ہے۔ یہ دیکھتا ہے کہ مشکل وقت میں سکون کے لیے بچے اپنی والدہ پر انحصار کرتے ہیں۔




عادت سے لاچار ہے عادت نئی عجیب

جس دن کھایا پیٹ بھر سویا نہیں غریب

second doha and its English translation

second doha and its English translation–

اس شعر کا مطلب ہے کہ انسان کی عادتوں کا اثر اپنے زندگی پر پڑتا ہے۔ دوسرے مصرع میں مثال دیتا ہے کہ ایک غریب آدمی کی عادت خالی پیٹ سونے کی ہوتی ہے۔ لیکن ایک دن جب اس کو پیٹ بھر کھانے کو ملتاہے تو اس رات غریب آدمی سو نہیں پاتا، کیونکہ اس کی عادت خالی پیٹ سونے کی تھی، اور اب اس کا پیٹ بھر گیا۔ جب کوئی بھی عادت سے غیر معمولی ہوجاتا ہے، اور پھر وہ عادت ٹوٹ جائے، تو وہ شخص بےچین ہو جاتا ہے۔




ندیا نے مجھ سے کہا مت آ میرے پاس

پانی سے بجھتی نہیں انتر من کی پیاس

third doha and its English translation

third doha and its English translation–

ہمارا دل پیسے، کامیابی، محبت، وغیرہ کو چاہتا ہے، یہ ہماری انتر من کی پیاس ہے۔ اس شعر میں ندی ان چیزوں کی نمائندگی کر تی ہے۔ یہ ندی ہمیں بتارہی ہے کہ ہم اس کے پاس نہ آئیں، کیونکہ اگر ہم ندی کے پاس جائیں گے، ہماری دل کی پیاس نہیں بجھے گی۔ یعنی اگر ہم ان چیزوں کو جو ہمارا دل چاہ رہا ہے حاصل کرلیں، تو پھر ہم خوش نہیں ہوں گے، ہم کو دوسری چیزوں کی چاہت ہونا شروع ہو جائے گی۔ اور ندی کا بہاوٴ تیز ہوتا ہے، تو اگر ہم ندی میں گر جائیں تو ہم اس میں ڈوب بھی سکتے ہیں۔




لوٹا گیہوں بیچ کر اپنے گاوٴں کسان

بٹیا گڑیا سی لگی پتنی لگی جوان

fourth doha and its English translation

fourth doha and its English translation–

یہ شعر پیش کرتا ہے کہ اگر کسی نے بہت چھوٹا کام کر لیا، اس کا مطلب نہیں ہے کہ وہ بہت بڑا بن گیا۔ پہلے مصرع میں کسی نے تھورا سا گیہوں بیچ لیا اور اب اپنے آپ کو پورا گاوٴں کا سب سے شاندار کسان سمجھتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس نے کوئی اہم کام نہیں کیا۔ پھر دوسرے مصرع میں وہ مثال دیتا ہے کوئی آدمی کا جس کے پاس ایک بیٹی ہے جو گڑیا کی طرح لگتی ہے، اور ایک بیوی جو بڑی خوبصورت ہے۔ یہ دونوں چیزیں اہم نہیں ہیں، معاشرہ کو بہتر نہیں کرتا، لیکن یہ آدمی اپنے آپ کو بہت اہم سمجھے گا۔




کھول دیے کچھ سوچ کر سب پنجروں کے دوار

اب کوئی پنچی نہیں اڑنے کے تیار

fifth doha and its English translation

fifth doha and its English translation–

یہ شعر بتاتاہے کہ اگر کسی کے پاس موقع یا صلاحیت ہے کچھ برے کام کرنے کے لیے، اس کا مطلب نہیں ہے کہ وہ برا کام کریں گے۔ پہلے مصرع میں مصنف سوچ رہا تھا کہ وہ پنجروں کے دوار کھول دے۔ یہ غور سے سوچنے کا مطلب ہے کہ اس پنجروں کے دوار بند بہت اچھی وجہ سے تھے۔ شاید ان پنجروں کے اندر خطرناک سوچ یا احساسات ہیں۔ خیر، وہ ان دوار کو کھول دیتا ہے۔ لیکن کھولنے کے بعد کوئی پرندے، جو مصنف کو نمائندگی کرتا ہے، نہیں اڑیں۔ پرندے نے اپنے نئی آزادی کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ مصنف کا برے مزاج میں شامل ہونے کا شک بیان کرتا ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پنچی اتنے دیر پنجروں میں رہے رہے تھے، کہ اب ان کی عادت پڑ گئے قئد ہونے کی۔ تو جب ان کو آزادی مل جاتی ہے، وہ نہیں اڑتے۔