آدمی آدمی سے ملتا ہے کی تشریح


غزل

Ghazal

Ghazal–


تشریح

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

پہلا شعر

پہلا شعر–

اس شعر کا مطلب ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے سے بہت ملتے رہتے ہیں، لیکن ہم ہر ایک سے اتنا قریب نہیں ہوتے۔ پہلے مصرح میں، شاعر کہتا ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، جیسے جب بھی ہم باہر جائے، تو جو بھی شخص ہم کو ملتا ہے ہم ان کو سلام دعا کرتے ہیں۔ پھر دوسرے مصرح میں، شاعر "ملتا" دوسرے معنی میں استعمال کرتے ہیں، جو پیار یا تعلق کا اظہار کرتا ہے۔ تو ہمارا دل ہر ملتا ہوا شخص کو پسند نہیں کرتا، بلکہ دل کسی کو پسند کرنا بہت کم ہوتا ہے۔


بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے

وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

دوسرا شعر

دوسرا شعر–

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس کے محبوب نے ان سے بہت ظلم کیے ہیں۔ لیکن وہ اپنے محبوب سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ جب وہ ان کے سامنے آتا ہے تو ان کے محبوب بہت معصوم لگتا ہے اور شاعر اس کے سارے ظلم بھول جاتے ہیں۔ یہ دیکھاتا ہے کہ جب ہم کسی سے بہت محبت کرتے ہیں، ہم ان کا برا سلوک برداشت کر لیتے ہیں۔


آج کیابات ہے کہ پھولوں کا

رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

تیسرا شعر

تیسرا شعر–

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے اتنا خوش ہیں، کہ اس کو سارے خوبصورت چیزوں میں ان کواپنا محبوب نظر آرہا ہے۔ کہ پھول کے رنگ اس کو اپنے محبوب کی کھلتی ہنسی یاد آرہی ہے۔ تو شاعر پیار کاخوشی بیان کر رہے ہیں۔


سلسلہ فتنہٴ قیامت کا

تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

چوتھا شعر

چوتھا شعر–

شاعر اپنے محبوب کا قد کی تعریف کررہاہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کا قد اتنا خوبصورت اور لمبا ہے کہ اس کو دیکھ کر قیامت ہوسکتی ہے۔


مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا

ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

پانچواں شعر

پانچواں شعر–

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب کہ اس کا دل کسی سے ملتا نہیں، یعنی پسند کرنا، وہ کوئی سخص سے مل گیا اور وہ اس کے پیار میں گرفتار ہو گیا۔ لیکن پھر وہ شخص نے جدائے یا کوئی ظلم کرکے شاعر کا دل ٹوٹ دیا۔ پگر بھی شاعر کا دل وہ ہی شخص کو چاہتا ہے۔


کاروبار جہاں سنورتے ہیں

ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

چھتا شعر

چھتا شعر–

اس شعر میں "کاروبار جہاں" کا مطلب ہے دنیا کے کام۔ اور "سنورتے" کا مطلب ہے مکمل ہونا۔ "بےخودی" کا مطلب ہے جزبہ۔ شاعر کہتےہیں کہ ہم کوئی بھی کام میں کامیاب ہو جائیں گے اگر ہمارے پاس جذبه اور ہوش ہو۔ اگر ہوش ہو پھر ہم کام محنت سے کریں گے، اور اگر جزبہ ہو تو پھر ہم کام خوشی سے بھی کریں گے۔


روح کو بھی مزا محبت کا

دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے

ساتواں شعر

ساتواں شعر–

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس کی روح کو بھی خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے محبوب کے قریب ہوتا ہے۔ تو شاعر اپنے محبوب سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اس کا روح کو بھی یہ بات محسوس ہوتی ہے۔